Results 1 to 2 of 2

Thread: مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
    میر تقی میرؔ Ù†Û’ تو اشعار Ú©ÛŒ صورت یہ نوØ+ہ دلّی Ú©ÛŒ بربادی پر پڑھا تھا مگر آج Ú©ÛŒ صورتØ+ال میں یہ الفاظ کراچی Ú©ÛŒ بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ ویسے تودنیا میں سینکڑوں شہر برباد اور آباد ہوئے‘ ایسے بھی شہر رہے کہ جو برباد ہوئے، بار بار ہوئے مگر پھر آباد ہو گئے۔ دلّی Ú©Ùˆ ہی لیجئے کہ تیمور Ùˆ نادر شاہ ہوں یا انگریز سرکار‘ اس شہر Ú©Ùˆ بار بار اجاڑا گیا۔ میرے شہر کراچی کا بھی یہی المیہ ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ دلّی Ú©Ùˆ غیروں Ù†Û’ لوٹا اور کراچی Ú©Ùˆ اپنوں Ù†Û’Û” یہ واØ+د ایسا شہر ہے جو اپنوں Ú©Û’ ہاتھوں نہ صرف برباد ہوا بلکہ اس پر بربادی مسلط بھی Ú©ÛŒ گئی۔ جمہوریت کا پشتیبان ہونا اس کا جرم ٹھہرا۔ اس شہر Ú©ÛŒ تہذیب، روایات، وضعداری اور مرکزیت Ú©Ùˆ ختم کرکے اسے لسانیت، فرقہ واریت اور قوم پرستی Ú©ÛŒ بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایک آمر Ú©Û’ سامنے مادرِ ملّت Ú©ÛŒ Ø+مایت Ú©ÛŒ ''سزا‘‘ کا جو سلسلہ دارالØ+کومت Ú©ÛŒ منتقلی سے شروع ہوا‘ وہ کبھی لٹیروں Ùˆ بھتہ خوروں اور کبھی نااہل Ùˆ کرپٹ Ø+اکموں Ú©Ùˆ مسلط کرنے Ú©ÛŒ صورت آج بھی جاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں یہ واØ+د میٹرو پولیٹن ہے جس میں عملی طور پر بلدیاتی ہو یا صوبائی‘ کوئی فعال Ø+کومت نہیں ہے۔ بلدیاتی نظام تباہ ہو چکا ہے اور کوئی ادارہ کسی Ú©Ùˆ جواب دہ نہیں ہے۔
    اس شہر پر کوئی قدرتی آفت آئے یا اس Ú©Û’ Ø+کمران اپنی نااہلی Ú©ÛŒ وجہ سے کسی آفت Ú©Ùˆ دعوت دیں‘ شہر میں تباہی یقینی ہوتی ہے۔ آج Ú©Ù„ کراچی مون سون Ú©ÛŒ بارشوں Ú©ÛŒ وجہ سے ڈوبا ہوا ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور نہ ہی اس بار بارشیں زیادہ ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ بارشیں موسمی ہوں یا بے موسمی‘ زیادہ ہوں یا کم‘ اس شہر پر بارانِ رØ+مت ہمیشہ زØ+مت بنا دی جاتی ہے۔ جب ہنگامی صورت Ø+ال پیدا ہوتی ہے تو پورے انتظامی ڈھانچے، سول اداروں، صوبائی Ùˆ بلدیاتی Ø+کومتوں Ú©ÛŒ ناقص کارکردگی Ú©Ú¾Ù„ کر سامنے آ جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، میئر کراچی، وزیر بلدیات، کمشنر کراچی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ Ø+کام، گورنر سندھ سب ناکام اور مشاورت Ú©Û’ ذریعے شہر Ú©Û’ لیے مشترکہ Ø+کمت عملی بنانے Ú©Û’ بجائے اپنا اپنا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ کراچی Ù…Úº معمولی بارش بھی ایسی صورتØ+ال پیدا کر دیتی ہے کہ جیسے کوئی آفت نازل ہوئی ہے جو شہر Ú©Ùˆ بہا Ù„Û’ جائے گی۔ Ø+کمران کبھی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے ہیں تو کبھی معمول سے زیادہ بارشوں کا جواز تراشتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ 1970Ø¡ میں جب اسی نوعیت Ú©ÛŒ طوفانی بارشیں ہوتی تھیں Ø+تیٰ کہ لیاری ندی ابل پڑتی تھی، شہر اس وقت تو کبھی نہیں ڈوبا تھا، پھر مون سون Ú©ÛŒ تو دور Ú©ÛŒ بات ہے‘ یہ شہر تو اب بے موسمی معمولی سی بارش بھی برداشت نہیں کر پاتا۔اس سوال کا جواب یہ Ø+کمران کبھی نہیں دیں Ú¯Û’ØŒ اس لیے کہ شہر Ú©ÛŒ تباہی Ú©Û’ ذمہ دار یہ خود ہیں‘ جو گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے شہر پر قابض ہیں۔ یہ کبھی نہیں بتائیں Ú¯Û’ کہ قلیل مدت میں اس شہر Ú©Ùˆ کسی منصوبہ بندی Ú©Û’ بغیر بے ہنگم توسیع دی گئی۔ صرف مال بنانے Ú©ÛŒ ہوس میں شہر Ú©Ùˆ اس طرØ+ نوچا گیا کہ تصور Ù…Ø+ال ہے۔ بلند Ùˆ بالا عمارتوں کا جال بچھا دیا گیا، چائنہ کٹنگ Ú©ÛŒ اصطلاØ+ متعارف کرائی گئی اور شہر Ú©Û’ میدان، پارکس، Ø+تیٰ کہ نالے تک فروخت کر دیے گئے۔ آج شہر قائد میں ہزاروں چھوٹی بڑی غیر قانونی آبادیاں ہیں جو شہر Ú©Û’ 38 بڑے اور 550 چھوٹے نالوں پر آباد ہیں۔ کئی اہم سرکاری Ùˆ غیر سرکاری عمارتیں بھی انہی نالوں پر قائم ہیں اور ایسی عمارتیں بھی ہیں کہ جن Ú©Û’ ذکر سے پَر جلتے ہیں۔ ان تعمیرات سے یہ نالے بند ہو Ú†Ú©Û’ ہیں اور نکاسی Ú©Û’ لیے کارآمد نہیں رہے۔
    دنیا بھر میں‘ جب بھی باشعور قومیں کوئی نیا شہر بساتی ہیں یا کسی شہر Ú©Ùˆ توسیع دیتی ہیں تو سب سے پہلے اس Ú©Û’ سیوریج سسٹم اور رین ڈرینج سسٹم پر توجہ دی جاتی ہے، اس Ú©Û’ بعد انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ Ú©Ùˆ دیکھا جاتا ہے مگر ایسا وہ قومیں کرتی ہیں جو اپنے شہر Ùˆ ملک Ú©ÛŒ تعمیر چاہتی ہیں۔ کراچی کا المیہ تو یہ ہے کہ اس Ú©Û’ پھیلائو Ú©Û’ دوران سیوریج سسٹم اور رین ڈرینج سسٹم کا سوچا تک نہیں گیا۔ بلدیہ ہو یا پورٹ ٹرسٹ‘بغیر کسی منصوبہ بندی Ú©Û’ نت نئے رہائشی علاقے ہزاروں ایکڑ پر پھیلتے اور بس پھیلتے ہی Ú†Ù„Û’ گئے۔ ماہرین چیخ رہے تھے کہ ایسا مت کرو، گلوبل وارمنگ Ú©ÛŒ وجہ سے اب بارشیں زیادہ ہوا کریں Ú¯ÛŒ ØŒ بغیر منصوبہ بندی شہر Ú©ÛŒ توسیع نہ کرو۔ مگر کسی Ù†Û’ نہ سنی۔ماضی میں یہی غلطیاں ممبئی، چنائی، ڈھاکا، بینکاک اور 19ویں صدی میں نیویارک، لندن، اور پیرس میں Ú©ÛŒ گئی تھیں۔ نالے بند کردیے گئے تھے جبکہ ان پر کینال اور کریک بنا دیے گئے تھے۔ وہ چھوٹی آبادیاں تھیں، جہاں غلطی Ú©Ùˆ سدھارنا آسان تھا اور انہوں Ù†Û’ اپنی خامیوں پر جلد قابو بھی پا لیا جبکہ کراچی ایک تیزی سے پھیلتا ہوا شہر ہے‘ اس Ú©Û’ مسائل اسی طرØ+ بڑھتے رہے تو عنقریب ان پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ ماہرین Ú©ÛŒ یہ صدائیں Ø+کمرانوں Ú©Û’ کانوں تک بھی پہنچ رہی ہیں مگر Ø+کمران Ú©Ú†Ú¾ کرنے Ú©Ùˆ تیار نہیں ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتØ+ال میں نقصان Ù…Ø+ض غریبوں کا ہی ہوتا ہے۔ مرتے بھی غریب ہیں اور مالی تباہی بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔
    کراچی شاید دنیا کا واØ+د شہر ہے جو کسی ایک انتظامیہ Ú©Û’ پاس نہیں ہے۔ کراچی 13 مختلف اداروں Ú©Û’ زیرِ انتظام ہے، جس میںپورٹ ٹرسٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی، صنعتی علاقے، ہاؤسنگ سوسائٹیز وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی سب Ú©Ú†Ú¾ ایڈ ہاک بنیادوں پر Ú†Ù„ رہا ہے۔ اب تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ بجٹ کا قابلِ ذکر بوجھ اٹھانے والا، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا، سمندری Ùˆ فضائی پورٹس سے 95فیصد آمدن فراہم کرنے والا منی پاکستان ØŒ کیا دوبارہ ایک مکمل شہر Ú©ÛŒ صورت میں سامنے آ سکے گا؟ اس Ú©Û’ Ø+اکم اور نمائندگی Ú©Û’ دعویدار تو بس ایک دوسرے پر الزام دھرنے اور اپنے پیٹ بھرنے میں Ù…Ú¯Ù† ہیں۔ جب کوئی ہنگامی صورت Ø+ال پیدا ہوتی ہے تو Ú©Ú†Ú¾ ہلچل نظر آتی ہے مگر جیسے ہی وقت گزرتا ہے‘ سب Ú©Ú†Ú¾ معمول پر آ جاتا ہے اور شہر Ú©ÛŒ صورتØ+ال Ú©Ùˆ بہتر بنانے Ú©Û’ بجائے پھر اسے بھنبھوڑنے کا عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔اگر شہر Ú©Ùˆ بچانا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنانا ہوگا، بالکل اسی طرØ+ جیسے یہ شہر ملک Ú©Û’ کسی بھی Ø+صے سے آنے والوں Ú©Ùˆ ایک ماں Ú©ÛŒ طرØ+ اپنی آغوش میں Ù„Û’ لیتا ہے۔ اس شہر کیلئے تمام اداروں Ú©Ùˆ ایک پیج پر جمع ہونا ہوگا، طویل مدتی نکاسیٔ آب Ú©Û’ منصوبے فوری شروع کرنا ہوں Ú¯Û’ØŒ برساتی نالوں Ú©ÛŒ صفائی اور ان پر تجاوزات بغیر کسی تفریق Ú©Û’ فوری ختم کرنا ہوں گی۔ وفاقی Ùˆ صوبائی Ø+کومت مشترکہ طور پر ایک ورکنگ گروپ قائم کر سکتی تھیں جس میں ماہرین Ú©Û’ تجربے Ú©ÛŒ بنیاد پر شہر Ú©Ùˆ مسائل سے نکالنے Ú©ÛŒ منصوبہ بندی Ú©ÛŒ جا سکتی ہے۔ عوام بے مقصد کہانیاں سنتے سنتے تنگ آ Ú†Ú©Û’ ہیں۔ تیمور Ø+سن کہتے ہیں ØŽ
    مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا
    باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا
    میرے تØ+فظات Ø+فاظت سے ہیں جڑے
    میرے تØ+فظات مٹا‘ شہر Ú©Ùˆ بچا
    تو اس لیے ہے شہر کا Ø+اکم کہ شہر ہے
    اس کی بقا میں تیری بقا‘ شہر کو بچا
    تو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے
    اے شہریار جاگ ذرا شہر کو بچا
    تو چاہتا ہے گھر ترا Ù…Ø+فوظ ہو اگر
    پھر صرف اپنا گھر نہ بچا‘ شہر کو بچا
    کوئی نہیں بچانے Ú©Ùˆ آگے بڑھا Ø+ضور
    ہر اک نے دوسرے سے کہا: شہر کو بچا
    تاریخ دان لکھے گا تیمورؔ یہ ضرور
    اک شخص تھا جو کہتا رہا‘ شہر کو بچا


    2gvsho3 - مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

    2gvsho3 - مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا ۔۔۔۔ زاہد اعوان

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •